Maktaba Wahhabi

251 - 391
کی طرف سے بلاوا آگیا۔ کلیہ دار القرآن میں صحیح بخاری شریف پڑھنے والے طلبا کلاس میں بیٹھے ان کی تشریف آوری کا انتظار کر رہے تھے کہ گھر سے سانحہ کی اطلاع آ گئی اور یوں یہ مجلسِ علم، مجلسِ تعزیت میں تبدیل ہو گئی۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ زہد و ورع میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ اس سلسلے میں حضرت مرحوم کے متعدد واقعات سے سلف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ پوری زندگی تعلیم اور تبلیغِ دین میں گزری، مگر تنخواہ لینا تو کجا، اس کا تصور بھی دل میں کبھی نہ آیا۔ نہ کبھی اس کا اظہار اور نہ ہی کسی پر اس کا احسان جتلایا۔ ممتاز دواخانہ کے نام سے شربت، عرق اور قرابادینی مرکبات تیار کرنے کا مشغلہ اختیار کیا۔ بھٹو دورِ حکومت میں چینی کا جو کوٹہ سسٹم چل نکلا تھا تو مجال ہے کہ کبھی مدرسہ کے کوٹہ سے فائدہ اٹھایا ہو۔ مدرسہ میں کھانا تیار ہوتا، بسا اوقات باورچی خانہ میں تشریف لے جا کر خود کھانے کا جائزہ لیتے، مگر کبھی ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالا۔ اگر کبھی محسوس ہوا کہ کھانا درست نہیں ہے تو تسلی کے لیے طالب علم کو بلا کر اسے چیک کروایا کرتے۔ خود اسے چکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ دار القرآن میں ملکی اور غیر ملکی مہمان آتے یا انجمن کا کبھی اجلاس ہوتا تو کھانے کا اہتمام اپنے ذاتی مصارف سے کرتے۔ اس کا بوجھ مدرسہ پر نہ ڈالتے۔ آخری ایام میں کلیہ دار القرآن کی ضرورت کے پیشِ نظر گاڑی لینا ناگزیر ہوا تو اسے اپنے ذاتی استعمال میں لانے سے گریز کرتے۔ اگر کبھی اس کی نوبت آجاتی تو باقاعدہ حساب کر کے اس کا معاوضہ کلیہ کے کھاتے میں جمع کروا دیتے۔ ایک روز سبز دھنیا کی گھر ضرورت محسوس ہوئی، مگر سوئے اتفاق کہ گھر میں سبز دھنیا نہ تھا، کلیہ کے باورچی کو علم ہوا تو کچھ دھنیا گھر لے گیا۔ گھر کی ضرورت تو پوری ہو گئی مگر پوچھا کہ دھنیا تو گھر میں نہیں تھا، یہ کہاں سے مل گیا؟ جب صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا تو اظہارِ ناپسندیدگی فرمایا اور دھنیا کی قیمت
Flag Counter