گئے۔ ابتلا اور مصیبت کا آخری دور تقریباً پانچ ماہ تک جاری رہا۔‘‘[1]
اصل عربی نسخہ تو پیشِ نگاہ نہیں تاہم دورِ ابتلا کی یہ مدت چار ماہ تیرہ دن ہے، جسے تقریباً ’’پانچ ماہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور قید کیے جانے کی تاریخ ۷ شعبان ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم
اندازہ فرمائیے کہ کس قدر صاف اور واضح بات ہے کہ اکتیس، بتیس یوم پہلے قید ہو جانے والے کو ابن بطوطہ نے جامع مسجد دمشق میں خطبہ دیتے ہوئے کیسے دیکھ لیا۔ سُبْحَانَکَ ھَذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ
تاریخ و رجال کا طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راویوں کو جانچنے اور پرکھنے کا ایک طریقہ یہی علم التاریخ والوفیات ہے۔ خود حضرت مولانا رحمہ اللہ نے ’’اتحاف النبیہ‘‘ کے مقدمہ میں ’’أھمیۃ معرفۃ رجال أسانید الکتب والوقوف علی وفیاتھم‘‘ عنوان قائم کر کے اس فن کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔
امام سفیان ثوری کا فرمان ہے:
’’لما استعمل الرواۃ الکذب استعملنا لھم التاریخ‘‘[2]
’’راویوں نے جب جھوٹ بولنا شروع کر دیا تو ہم نے تاریخ کو استعمال کیا۔‘‘
ان کا کذب تاریخ سے ظاہر ہو گیا۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اعلان بالتوبیخ میں اس موضوع کے متعلق چند واقعات بیان کیے ہیں اور انہی میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ۴۴۷ھ میں یہودیوں نے ایک خط حاکمِ وقت کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گرامی نامہ ہے، جس میں اپ نے اہلِ خیبر پر سے جزیہ
|