حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنہ (۴/۱۵۶) اور ان کے بعد حضرت نواب صدیق حسن خان مرحوم نے بھی ’’تقصار جیود الاحرار‘‘ میں اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے، جس سے ایک قاری کے ذہن میں بادی النظر میں پیدا ہونے والی یہ الجھن رفع ہو جاتی ہے کہ شیخ الجعفری اس کتاب کا نصف اول روایت کیوں نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت شاہ صاحب نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی بنیاد جن احادیث و آثار پر ہے ان کے مآخذ و مراجع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’وفي ضمن الموطأ تالیف الإمام محمد عن مفتي بلد اللّٰه الحرام‘‘[1]
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے دلائل موطا امام محمد رحمہ اللہ کے ضمن میں ہیں، جو انھوں نے البلد الحرام مدینہ منورہ کے مفتی امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔‘‘
امام محمد رحمہ اللہ کے موطا کی حیثیت کیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے اس کی نسبت کیسی ہے۔ اس پُرپیچ مسئلے کو اختصار کے باوجود جس حسن و خوبی اور جامعیت سے مولانا مرحوم نے بیان کیا ہے وہ قابلِ مطالعہ ہے جس کا خلاصہ ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کیے دیتے ہیں:
شاہ صاحب نے اس کتاب کے مبحث اول میں طبقات کتب الحدیث میں ذکر کیا ہے کہ موطا امام مالک رحمہ اللہ کے راوی امام محمد رحمہ اللہ بن حسن ہیں۔ یہی بات
|