ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ حواشی میں ان تمام امور کا اہتمام کیا گیا جو ایک خطی کتاب کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ بعض اور امور سے بخوف تطویل صرف نظر بھی کیا گیا، جن کی وضاحت تصدیر میں کر دی گئی ہے، مگر کتاب میں مذکورہ احادیث کی تخریج کے سلسلے میں سکوت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جب (ص: ۸۱،۸۲) پر موجود دو احادیث کی تخریج گو مختصراً ہی سہی کر دی گئی ہے تو باقی کو نظر انداز کر دینے کے کوئی معنی نہیں۔
پوری کتاب کو جن خطوط پر تیار کیا گیا ہے ان کی ضروری وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض مباحث کی تفصیل بیان کر دی جائے، جس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکیں گے کہ کس ژرف نگاہی اور وسعت سے کتاب کے متعلقہ تمام مجمل پہلوؤں کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ چنانچہ محدث الکتانی نے فہرس الفہارس میں اس کتاب کی سند بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’إنما یروي الجعفري المذکور نصفہ الأخیر لأن نصفہ الأول فیہ أسانید الطرق الصوفیۃ وکان لا یقول بالطرق‘‘
’’محمد بن عبدالعزیز الجعفری جن کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس کا آخری حصہ ہی روایت کرتے تھے کیوں کہ نصف اول میں صوفیا کے طرق و سلاسل کا بیان ہے اور وہ ان کے قائل نہیں تھے۔‘‘
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اسی ابہام کو کہ شیخ الجعفری طرق صوفیا کے قائل کیوں نہیں تھے۔ مکمل دو صفحات میں دور کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صوفیا کے ان سلاسل کا مدار ’’حسن بصری عن علی رضی اللہ عنہ ‘‘ کی سند پر ہے اور خود شاہ صاحب نے قرۃ العینین، ازالۃ الخفاء بلکہ اسی کتاب کی قسم اول ’’الانتباہ من سلاسل أولیاء اللّٰه ‘‘ میں اس سند کو منقطع قرار دیا ہے اور عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت
|