نقص یہ ہے کہ جس طرح شاہ صاحب نے احادیث متعلقہ الدرالثمین اور النوادر کو علاحدہ علاحدہ دو کتابوں میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح یہاں ’’النوادر‘‘ کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوع کی طرف بھی علاحدہ اشارہ ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ بات محلِ نظر ہے، کیوں کہ شاہ صاحب نے یہاں دراصل اس ’’النوادر‘‘ عنوان کے تحت اپنی دونوں کتابوں کی مرویات کا تعارف کرایا ہے، جیسا کہ خود ان کے درج ذیل الفاظ سے عیاں ہوتا ہے، لکھتے ہیں:
’’وأما النوادر وأعني بھا الأحادیث التي تروي من جھۃ الرٔویا الصادقۃ أو من جھۃ مشاھدۃ الروح أو من جھۃ الخضر أو من جھۃ الجن ونحو ذلک ولا تقوم بمثل ھذہ الأحادیث الحجۃ الخ‘‘[1]
یہی وجہ ہے کہ اس عنوان کے تحت جو روایات ذکر کی ہیں وہ دونوں کتابوں سے ماخوذ ہیں، جیسا کہ حضرت مولانا مرحوم نے وضاحت کی ہے، بلکہ حواشی میں ان کی نشاندہی بقیدِ صفحات کر دی ہے، اس لیے کم از کم یہ کہنا تو درست نہیں کہ یہاں ’’النوادر‘‘ کے علاوہ دوسری کتاب الدر الثمین کا تعارف بھی ہونا چاہیے تھا۔ البتہ اگر اشارہ یہاں اسی نقص کی طرف ہے، جسے پہلے تصدیر میں بیان کر دیا گیا ہے تو فبہا مگر عبارت کا ظاہر سیاق اس ناکارہ کو اس سے کچھ مختلف ہی معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰه تعالیٰ أعلم
بہرحال یہ دوسرا نسخہ بھی نقص سے خالی نہیں، مگر یہ نقص چنداں اہمیت کا حامل نہیں کہ وہ روایات النوادر اور الدرالثمین میں بتمام و کمال دیکھی جا سکتی ہیں۔
قصہ مختصر کہ انہی دو نسخوں کے مقابلے و مقارنہ سے یہ کتاب تیار ہوئی اور جیسا کہ
|