Maktaba Wahhabi

215 - 391
’’اکتشافات‘‘ کا جائزہ لے کر بطور تبصرہ ’’الاعتصام‘‘ میں اشاعت کے لیے ارسال کر دیا، مگر سنسر بورڈ کی ’’کرم فرمائی‘‘ آڑے آئی تو وہ ’’الاعتصام‘‘ میں شائع نہ ہو سکا۔ انہی دنوں حضرت مولانا کا مکتوبِ گرامی ملا، لکھتے ہیں: ’’عزیزم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ کا مضمون سنسر کی وجہ سے ’’الاعتصام‘‘ میں نہیں چھپ سکے گا، اب ارادہ اس کو الگ شائع کرنے کا ہے، مناسب یہ ہے کہ کسی وقت آپ ایک دن کے لیے لاہور آ جائیں اور اس کو رسالہ کی شکل دے دیں، تاکہ جلد طبع ہو سکے۔ مزید مشورہ آپ کے آنے پر ہو سکے گا۔ ان شاء اللہ ۔۔۔ ہذا والسلام محمد عطاء اللہ حنیفؔ ۲۰۔۲۔۸۱ ‘‘ قصہ مختصر! اسے رسالہ کی شکل دے دی گئی، کاتب کے سپرد کر دیا گیا، وہ لکھ کر لائے، گوجرانوالہ جی ٹی ایس میں سیٹ پر بیگ رکھ کر ٹکٹ لینے گئے، واپس آئے تو بیگ غائب۔ یوں لکھا لکھایا مسودہ مع اصل کاغذات کے گم ہو گیا۔ اچانک میں ملاقات کے لیے حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلام کے بعد پہلی بات یہ فرمائی کہ کل میں فیصل آباد تمھارے پاس جانا چاہتا تھا، میں نے بات کاٹتے ہوئے عرض کیا: زہے نصیب چشم براہ ہوں گا! فرمایا: لیکن اب نہیں کہ تم خود آ گئے ہو۔ اب تمھارے ساتھ افسوس کا اظہار یہیں کرتا ہوں۔ پھر تمام صورتِ حال بیان فرمائی، جس کا خلاصہ آپ پڑھ آئے ہیں۔ یقین جانیے میں تو وہیں گم سم ہو گیا۔ نہ اس کا مسودہ، نہ اس کا فوٹو۔ اب کیا ہو گا؟ فرمایا: ہمت نہ ہارو، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ دوبارہ لکھو اور جلد لکھو۔
Flag Counter