مگر سچی بات ہے کہ کئی ماہ تک طبیعت دوبارہ لکھنے پر آمادہ نہ ہو سکی۔ بالآخر مسلسل ان کے اصرار کے بعد دوبارہ اس کا جواب لکھا گیا جو نومبر ۱۹۸۱ء میں جاکر دار الدعوۃ السلفیہ کی طرف سے شائع ہوا، خود حضرت مولانا نے اس کا نام تجویز فرمایا اور اس کا افتتاحیہ لکھا، جیسا کہ اس ناکارہ نے خود دیکھا تھا۔ مگر وہ جناب مولانا محمد سلیمان انصاری رحمہ اللہ کے نام سے شائع ہوا، جس کے آخر میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ تحقیقی مقالہ موصوف نے جلد ہی لکھ لیا اور ’’الاعتصام‘‘ کو اشاعت کے لیے دے دیا تھا، مگر بعض مجبوریوں کے سبب اس میں شائع نہ ہو سکا، پھر اس کو الگ سے شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو بعض قدرتی موانع کی وجہ سے تاخیر در تاخیر ہوتی چلی گئی ۔۔۔۔۔‘‘[1]
اسی طرح شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید بدیع الدین شاہ صاحب الراشدی کی معرکہ آرا کتاب ’’جلاء العینین في تخریج روایات البخاري في جزء رفع الیدین‘‘ (جس کے بارے میں بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں) کو جب اس ناکارہ نے حضرت شاہ صاحب کے اپنے قلم سے لکھے ہوئے نسخہ سے نقل کیا اور جزء رفع الیدین پر حضرت مولانا فیض الرحمن صاحب الثوری رحمہ اللہ کے حواشی کا اس سے مقابلہ و مقارنہ کر کے ان کے زائد فوائدِ ضروریہ کو مرتب کر لیا مگر ادارۃ العلوم الاثریہ کی بے سروسامانی کی بنا پر ایک عرصہ تک اس کی طباعت معرضِ التوا میں رہی۔ حضرت مولانا رحمہ اللہ کو
|