اس اقتباس کو ذکر کرنے کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی، مگر اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس نوعیت کے جو رسالے آپ کے ایما پر طبع ہوتے، آپ صرف حکم دے کر یا چند صفحات میں ان کا پیش لفظ لکھ کر فارغ نہیں ہو جاتے تھے، بلکہ ان کی تنقیح اور ضروری حوالہ جات کی مراجعت فرما کر اپنا حصہ بھی اس میں ڈال دیتے۔
کچھ عرصے بعد مسجد کے میرے ہم نشیں ساتھیوں نے پھر دینی جذبے کے تحت کسی اور کتاب کو شائع کرنے کا پروگرام بنایا تو اس سلسلے میں مَیں نے مولانا سے رجوع کیا۔ باہم مشورے سے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معوذتین‘‘ کی طباعت کا فیصلہ ہوا تو اپنے کتب خانے کے نسخے سے اس کا فوٹو کروا کر میرے سپرد کر دیا اور یوں ’’معوذتین‘‘ کی یہ عظیم تفسیر ۱۹۸۳ء میں دوبارہ تقریباً نصف صدی بعد آپ ہی کے مشورے سے جمعیت شبان اہلِ حدیث خالد آباد کی طرف سے شائع ہوئی۔
حضراتِ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ حضرت حسن بصری کا سماع حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں۔ اس کے برعکس صوفیائے کرام اس کے قائل ہی نہیں، بلکہ وہ صوفیانہ خرقہ پوشی کے لیے سندِ جواز بھی اسی سے لیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں خرقہ پہنایا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور متاخرین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بڑی شدت سے اس کا انکار کیا ہے۔ شاہ صاحب ہی کے ایک معاصر مولانا محمد فخر الدین دہلوی نے شاہ صاحب کی تردید میں ایک رسالہ ’’فخر الحسن‘‘ کے نام سے لکھا۔ حضرت مولانا شیخ الاسلام اور شاہ صاحب کے ہم فکر تھے۔ جب یہ رسالہ پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کراچی کی جانب سے طبع ہوا تو حضرت مولانا نے اس کے مندرجات کا جائزہ لینے کے لیے اس ناکارہ کو حکم فرمایا۔ میں نے چند ہی دنوں میں اٹھارہ (۱۸) صفحات پر مشتمل تبصرہ لکھ کر حضرت کی خدمت
|