مشورے اور آپ کے مقدمہ و افتتاحیہ کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں تو ان کی تعداد یقینا ایک سو سے متجاوز ہو گی۔
دوسروں کی نہیں کہ یہ عنوان وسیع الذیل ہے، آپ بیتی عرض کرتا ہوں کہ چند سال پہلے ۱۹۷۷ء میں دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف سے ’’جمعۃ في القریٰ‘‘ کے مسئلے پر ایک بار پھر باسی کڑھی میں اُبال آیا تو انھوں نے مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا رسالہ ’’اوثق العریٰ في تحقیق جمعۃ في القریٰ‘‘ اور مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانوی کا رسالہ ’’القول البدیع في اشتراط المصر للتجمیع‘‘ ’’گاؤں میں جمعہ کے احکام‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا۔ حضرت مولانا نے اس ناکارہ سے فرمایا کہ اس کا جواب شائع ہونا چاہیے اور بہتر ہے کہ کسی نئی کاوش کے بجائے اسی دور کے دو تین رسالے شائع کر دیے جائیں، جن سے سلف کی یاد بھی تازہ ہو جائے گی اور مسئلے کی بھی وضاحت ہو جائے گی۔ میں نے واپس آ کر جامعہ مسجد محمدی اہلِ حدیث خالد آباد کے رفقا بالخصوص جناب عبدالرشید صاحب کو اس پر آمادہ کیا، انھوں نے حامی بھر لی۔ اور یوں آپ رحمہ اللہ ہی کے ایما پر حضرت مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری شارح جامع ترمذی کا رسالہ ’’نور الأبصار‘‘ جو دراصل مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کے رسالہ ’’جامع الآثار في اختصاص الجمعۃ بالأمصار‘‘ کا جواب ہے اور دوسرا رسالہ حضرت مولانا مولا بخش صاحب بڑاکری کا ’’التجمیع فی القریٰ بنقض ما في أوثق العریٰ‘‘ جو انھوں نے مولانا گنگوہی کے جواب میں لکھا تھا، اور تیسرا رسالہ حضرت مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی صاحبِ عون المعبود کا ’’التحقیقات العلی في فرضیۃ الجمعۃ في القریٰ‘‘ کا ایک مجموعہ جمعیت شبان اہلِ حدیث خالد آباد، فیصل آباد کی طرف سے ۱۹۷۸ء میں
|