اور علومِ حدیث کے متعلق کتابیں لکھیں، بالخصوص عون المعبود شرح سنن ابی داود کو تو ایسی شہرتِ دوام ملی کہ سنن کی شروح میں کوئی بھی اس کا سہیم و شریک نہ بن سکی۔ اسی طرح سلف کی بہت سی گراں قدر تصنیفات آپ ہی کی مساعیِ جمیلہ سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں۔ خدمتِ علمِ حدیث ہی کے لیے انھوں نے اپنے اردگرد اپنے رفقا اور ہم فکر اصحاب کی ایک جماعت جمع کر رکھی تھی، جن سے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھواتے۔ اُن کے لیے اپنے کتب خانے کے علاوہ دوسرے مکتبات سے کتابیں مہیا کرتے اور اُن کی طباعت کے لیے مالی اعانت بھی کرتے۔ یہی انداز بھوپال میں حضرت مولانا نواب صدیق حسن خان قنوجی مرحوم کا تھا، مگر اس حقیقت کا بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان دونوں حضرات رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و دولت، دونوں سے نوازا تھا اور انھوں نے بفضل اللہ تعالیٰ دولت و ثروت کو صحیح مصرف پر خرچ کیا۔
مگر ہمارے محدث بھوجیانی رحمہ اللہ نے اپنی ناتوانی اور بے سروسامانی کے باوجود اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر ’’دار الدعوۃ السلفیہ‘‘ کی صورت میں ایسی وقیع اور نادر کتابوں کا انبار جمع کر دیا، جس سے کوئی بحاث صرفِ نظر نہیں کر سکتا، بلکہ اگر کہا جائے کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کا وجود اس دور میں حضرت نواب صاحب اور محدث ڈیانوی کے فکر و عمل کی یادگار تھا تو اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ وہی کتابیں جمع کرنے کا ’’ٹھرک‘‘ خود لکھ رہے ہیں۔ اپنی نگرانی میں دوسروں سے لکھوا رہے ہیں۔ ضرورت اور احوال کے مطابق اپنے رفقا و متوسلین کو سلف کی کتابیں شائع کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اگر کسی رسالے میں کتاب و سنت یا مسلکِ سلف کے خلاف کوئی رد و قدح کی گئی تو اس کا جواب لکھوا کر ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور مرحوم ’’رحیق‘‘ میں شائع کر رہے ہیں اور یوں اگر ان مضامین اور ان کتابوں کی فہرست تیار کی جائے جو آپ کے
|