Maktaba Wahhabi

209 - 391
دردِ سر کیوں مول لی؟ کہ پہلے خود ’’من تکلم فیہ وھو موثق‘‘ کے بارے میں کتابوں کی مراجعت فرمائی اور کئی حوالوں سے اس کی حقیقت معلوم کر لینے کے بعد ایک ناکارہ طالب علم کو اس کے مطالبے کے بغیر اس حقیقت سے آگاہ فرمایا۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضرت مولانا کے مزاج میں جہاں خدمتِ علم کا جذبہ ان کی طبیعتِ ثانیہ بن گیا تھا، وہاں تشنگانِ علوم کی تشفی و تسلی کو انھوں نے اپنا فریضہ بنا رکھا تھا، جسے آخر عمر تک نبھایا اور خوب باکمال نبھایا۔ ان سے دینی مدارس کے طلبا و علما ہی مستفید نہیں ہوتے تھے، بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹ اور لیکچرار اور پروفیسر حضرات بھی اپنے مقالہ جات اور ڈاکٹریٹ کی تیاری کے لیے حضرت مولانا کی طرف رجوع کرتے اور یہ فیضِ عام اندرونِ ملک ہی نہیں، بیرونِ ملک بھی جاری تھا۔ یوں وہ علم کی خدمت میں دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنا کوئی باقاعدہ مدرسہ نہیں بنایا، مگر طلبا اور علما کی اس راہنمائی کے نتیجے میں انھوں نے چند ایسے باکردار اور باصلاحیت افراد تیار کر دیے ہیں جو جماعت اور مسلک کے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔ زندگی کے آخری ایام میں اپنے رفقا کے مشورے سے ’’دار الدعوۃ السلفیہ‘‘ کے نام سے جب ایک ادارے کی بنیاد رکھی تو اپنا قیمتی کتب خانہ اس کے لیے وقف کر دیا اور یوں ان کے انتقالِ پرملال کے بعد بھی صرف آپ ہی کی بدولت طلبا و علما کے لیے ایک جگہ ایسی بن گئی ہے جو صرف خدمتِ علمی اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہے۔ جزاہ اللّٰه أحسن الجزاء۔ کسے معلوم نہیں کہ برصغیر میں حضرت مولانا شمس الحق ڈیانوی کا کتب خانہ نامی گرامی کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا، خود انھوں نے ڈیڑھ درجن کے قریب حدیث
Flag Counter