صاحب محدث مبارکفوري أبقاہ اللّٰه ‘‘[1]
جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مولانا مبارکپوری کو ان کے مذہبی مخالفین بھی ان کی زندگی میں ’’محدث‘‘ تسلیم کرتے تھے اور اسی سے یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ مسلکی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور ان سے تعلق و محبت کا کیا عالم تھا۔
حضرت مولانا شمس الحق رحمہ اللہ محدث عظیم آبادی نے جب ’’عون المعبود شرح سنن أبي داود‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا تو اپنے تعاون کے لیے نگاہِ انتخاب جن جن حضرات پر پڑی ان میں ایک محدث مبارکپوری بھی تھے۔ چنانچہ حضرت موصوف اس عظیم الشان شرح کی تکمیل تک برابر چار سال (۱۳۲۰ھ۔ ۱۳۲۳ھ) تک ڈیانواں رہے۔ مولانا عبدالسمیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ اس حوالے سے جو کچھ لکھتے اور جو فرماتے محدث ڈیانوی اس پر اعتماد کرتے اور اس کی تحسین فرماتے اور سنن ابی داود کے مشکل مقامات کے حل میں ان سے مشورہ کرتے۔[2]
مولانا سید عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وہ علوم الحدیث سے شکم سیر تھے، اس کی انواع و اقسام اور علل کی تمیز کرنے والے تھے۔ اسماء الرجال، فن جرح و تعدیل اور تخریج احادیث میں ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ علمائے ربانیین میں سے عالم باعمل، خشوع اور تواضع کے پیکر، رقیق القلب، کثیر البکاء، سخی اور طلبا کے لیے انتہائی ایثار پیشہ اور ان کے خیر خواہ تھے۔ کھانے، خوراک و پوشاک میں تکلف اور نمود و نمایش سے دور زاہد، دنیا سے بے نیاز، کم پر گزارا کرنے والے، عہدہ، منصب اور بڑی بڑی تنخواہوں سے بے نیاز، علم، تصنیف و تالیف
|