Maktaba Wahhabi

92 - 462
حوالے سے نقل کر آئے ہیں اور متاخرین میں حافظ ابن الصلاح، حافظ ابن حجر، حافظ ذہبی، علامہ سخاوی رحمہم اللہ اور دیگر ائمۂ فن نے انھیں تصحیح و تضعیف میں حجت مانا ہے، جیسا کہ یہ بحث آیندہ صفحات میں آرہی ہے۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ مزید تعجب یہ کہ مولانا عبدالعزیز مذکور زورِ بیان میں یہاں تک فرما گئے: ’’وھذا حال کثیر من الشوافع‘‘ ہاں اگر وہ ذرا اپنے حنفی بھائیوں کے افعال و کردار کی نشاندہی بھی کر دیتے تو یہ بہتر ہوتا کہ انھوں نے اس میدان میں کیا گل کھلائے ہیں۔ ’’حمیتِ جاہلیت‘‘ کے پیشِ نظر کہاں کہاں انھوں نے اپنے مسلک کے مطابق روایات کو ضعیف کہا ہے اور کہاں صحیح۔ ہم اس کی چند مثالیں ذکر کر کے فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور بھی ہیں ع ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں وہ بھی تو ’’عمدۃ القاری‘‘ میں متعدد مواقع پر شوافع کے ساتھ اس ’’جرم‘‘ میں شریک نظر آتے ہیں۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ مسلک ہے کہ جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر کھڑا ہو تو سامعین کو السلام علیکم کہے۔ اس پر شوافع نے حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت اور امام شعبی رحمہ اللہ کی مرسل روایت سے استدلال کیا ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ اس مرسل روایت پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وإن أسندہ أحمد من حدیث عبد اللّٰه بن لھیعۃ فھو معروف فی الضعفاء فلا یحتج بہ وقال البیہقي: لیس بقوي‘‘[1]
Flag Counter