Maktaba Wahhabi

455 - 462
ہم اوڈانوالہ سے ۱۹۴۷ء میں لائل پور آ رہے تھے، میرے ساتھ حضرت مولانا محمد یعقوب مرحوم ملوی تھے اور ایک بھینس بھی ساتھ تھی، سمندری کے قریب سورج غروب ہونے لگا تو ہم نے چک ۴۶۸ کا رخ کیا، مسلمان گھرانے کا پوچھ کر ہم جب اس کے ہاں پہنچے اور اپنے رات رہنے کا اظہار کیا تو اس نے صاف طور پر انکار کر دیا کہ میں تمھیں رات نہیں رکھ سکتا۔ میں نے کہا: ہم نہ کھانا مانگتے ہیں، نہ مکان، صرف رات رہنا چاہتے ہیں، مگر وہ پھر بھی نہ مانا۔ میں نے کہا: ہم رات اور کہاں جائیں، گڈے کے ساتھ بھینس باندھ دی اور اسی پر لیٹ گئے، مگر مالک مکان اس کی بھی اجازت دینے کو تیار نہ تھا، باتوں باتوں میں میں نے اس سے پوچھا کہ تمھارا آبائی گاؤں کون سا ہے؟ تو اس نے کہا: سیالکوٹ میں، میں نے کہا: میرے آبا و اجداد کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے۔ یہ سن کر وہ بڑا خوش ہوا، گھر جا کر بسترے لے آیا اور کھانا بھی کھلایا۔ پھر اندھیرے میں وہ مجھے لوہار کی دکان کی طرف لے گیا، وہاں دیکھا کہ سکھ اسلحہ بنوانے میں مصروف ہیں، کلہاڑی، برچھا وغیرہ تیار ہو رہے ہیں، میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ صاحبِ خانہ نے بتلایا: ہم کسی مسلمان کو اسی لیے تو یہاں مہمان نہیں رکھتے کہ اگر انھیں پتا چل جائے کہ کوئی ان کے ہاں آکر ٹھہرا ہے تو یہ سکھ ہمیں تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ہماری شامت آ جاتی ہے۔ محض اس لیے کہ یہ تمھارا مہمان ہمارا راز افشا کر دے گا، اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم نے کیا کیا ستم ڈھائے تھے۔ برصغیر تقسیم ہوا تو مسلمان لٹ پٹ کر آئے، مولانا مرحوم اپنے رفقا کے ہمراہ ان کی رہایش اور خوراک کا بندوبست کرتے، اسٹیشن مامونکانجن پر ٹرین آتی تو
Flag Counter