مسلم لیگ اور اس کے طرزِ فکر سے بھی حضرت مولانا متفق نہ تھے، ان لوگوں نے ہمیشہ اسلام کا نام لے کر سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دامنِ تزویر میں پھنسایا، مگر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی سیاست کو اسلام ہی نہیں، ملک کے لیے خطرناک سمجھتے تھے، اس لیے انتخابات میں ہمیشہ ان کی مخالفت کی اور اس کے مقابلے میں مسلم لیگ یا کسی دوسری جماعت کے نمایندے سے بھرپور تعاون کیا، بلدیاتی الیکشن ہو یا صوبائی یا قومی، کوئی نمایندہ ان کی خدمت اور ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکا، انتخاب کے بارے میں ہمیشہ ان کی یہ رائے رہی کہ اہلِ حدیث نمایندہ بطور اہلِ حدیث بجز دو ایک حلقوں سے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا، لیکن اس کا یہ مقصد بھی نہیں کہ اہلِ حدیث افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح جدھر کوئی چاہے ہانک کر لے جائے۔ ملک میں اہلِ حدیث بحمداللہ ایک قوت ہیں، بالخصوص حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی کوششوں سے جو اس میں بیداری پیدا ہوئی، اب انھیں نہ دھوکے میں مبتلا کیا جا سکتا ہے نہ ورغلایا جا سکتا ہے۔ مولانا مرحوم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ان حالات میں اہلِ حدیث افراد کو باور کرایا جائے کہ اس کا ووٹ اس کا نہیں، بلکہ اس کی جماعت کا ہے، جماعت جس نمایندہ کی تائید کرے گی، اہلِ حدیث اس کو ووٹ دیں گے، ان کی اس فکر کا نتیجہ یہ تھا کہ اہلِ حدیث حضرات کے ووٹ حاصل کرنے لیے ضلعی و شہری سطح پر نمایندے ان کی طرف رجوع کرتے اور وہ اپنے رفقا سے مشورے کے بعد جو فیصلہ فرماتے، اس کی ہمیشہ پابندی کرتے۔
پاکستان بنا تو آپ ان دنوں اوڈانوالہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں مدرس تھے۔ تحصیل سمندری میں ایک نہر پر سکھوں کی آبادی زیادہ تھی اور وہ زمیندار تھے اور اپنے آپ کو مسلح کرنے میں شبانہ روز کوشش کر رہے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے ذکر کیا کہ
|