تیرہ علما نے سوشلزم کے کفر کا فتویٰ دیا تو جمعیت علمائے اسلام نے اس کی مخالفت کی، دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں جمعیت کا جلسہ حضرت مفتی محمود مرحوم کی صدارت میں ہوا۔ اس ناکارہ کے کانوں میں مرزا غلام نبی جانباز کی نظم کا یہ مصرعہ آج بھی محسوس ہو رہا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’یہ ہیں استنجے کے ڈھیلے‘‘ اور مفتی صاحب مسکرا رہے تھے۔
سوشلزم کے خلاف فتویٰ دینے والوں میں مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری آف گجرات بھی تھے۔ حضرت مفتی صاحب، مولانا غلام غوث ہزاروی وغیرہ ان کی خدمت میں گئے کہ فتویٰ واپس لے لیں، مگر شاہ صاحب نے فتویٰ واپس لینے سے انکار کر دیا۔ شورش کشمیری مرحوم اور ان کا چٹان جمعیت علمائے اسلام کے خلاف جو کچھ کہہ اور لکھ رہا تھا وہ آج بھی چٹان کی فائلوں میں محفوظ ہے۔
حضرت مفتی صاحب اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے اس طرزِ عمل سے بہت سے علمائے دیوبند پریشان تھے۔ سوشلزم کے خلاف مولانا احتشام الحق تھانوی اور ان کے ہم نوا میدانِ عمل میں آئے۔ ملک میں سوشلزم کے خلاف جلسے کیے، مولانا تھانوی ایک صاحب طرز خطیب تھے اور تھانہ بھون کی نسبت سے ان کا ایک مقام تھا، شہر بشہر مرکزی جمعیت علمائے اسلام بنانے کا اعلان کیا۔ فیصل آباد میں اس کی تنظیم بنی تو ہمارے ممدوح مولانا محمد اسحاق چیمہ کو اس کا صدر اور مولانا شمس الدین افغانی کو اس کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ رات کو دھوبی گھاٹ میں مولانا چیمہ مرحوم کی صدارت میں عظیم الشان جلسہ ہوا، دوسرے علمائے کرام کے علاوہ مولانا تھانوی نے تقریباً دو گھنٹے بڑی دھواں دھار تقریر کی۔ مگر افسوس! تھانوی صاحب بھی پیپلز پارٹی کے سیل رواں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ نہ کر سکے اور ’’سابقہ روش‘‘ کے مطابق چھلانگ لگا کر چڑھتے سورج کے پجاریوں میں شامل ہو گئے۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون
|