راوی کے اس تصور سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کو طلاق دے دی ہے، لیکن اس سے یہ قاعدہ بنا لینا کہ ’’احادیث‘‘ میں راوی کے قیاسات شامل ہوتے ہیں، قطعاً صحیح نہیں۔
اسی ضمن میں انھوں نے علامہ شبلی رحمہ اللہ کے اصولِ درایت پر بھی بحث فرمائی[1] اور فرمایا کہ شبلی مرحوم حدیثِ قرطاس کے بھی منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو تنہا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں اور وہ بھی اس وقت چھوٹی عمر کے تھے۔[2] فرمایا کہ علامہ شبلی کا یہ تصور صحیح نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ واقعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور ہی میں بیان کرتے تھے اور ان کے متعدد شاگردوں نے اُن سے اسے روایت کیا ہے۔ کسی ایک سے انکار منقول نہ ہونا اس کی صحت کی دلیل ہے۔ کسی حدیث کو صرف ایک ہی صحابی کے روایت کرنے سے حدیث مشکوک نہیں ہو جاتی۔ حدیثِ طلاق کو بھی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح حدیث: (( إنما الأعمال بالنیات )) کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں اور کسی صحیح سند سے دوسرے کسی صحابی سے یہ روایت نہیں۔ اس حدیث کی اہمیت کا اندازہ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث علم کا تیسرا حصہ ہے۔ امام احمد اور امام اسحاق رحمہما اللہ نے اسے اصولِ ایمان قرار دیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے بھی تنہا علقمہ لیثی ہیں اور ان سے صرف محمد بن ابراہیم تیمی ہی روایت کرتے ہیں، لہٰذا کسی حدیث کو صرف ایک صحابی کا روایت کرنا باعثِ کلام
|