نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ و مرتبہ کو سمجھنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
اس تفصیل سے مقصد دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ حضرت صاحب رحمہ اللہ درس میں بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث کی متداول شروحات پر ہی اکتفا نہیں فرماتے تھے، انھیں برصغیر میں انکارِ حدیث کے جرثوموں سے بخوبی واقفیت تھی۔ اس لیے حدیث کے بارے میں شبہاتِ قدیمہ کے ساتھ ساتھ شبہاتِ جدیدہ کا بھی ازالہ فرماتے۔ منکرینِ حدیث کے جواب میں انھوں نے دو مستقل رسالے بھی تحریر فرمائے تھے۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے مابین ایک حدیث کی علت کے سلسلے میں مشہور مذاکرہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’بوسہ کی پانچ قسمیں ہیں:
1 بوسۂ رحمت، جیسے والدین اولاد کا بوسہ لیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما بلکہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا بوسہ لینا ثابت ہے۔
2 بوسۂ تحیہ، جیسے مسلمان ایک دوسرے کو ملتے ہوئے کرتے ہیں اور عرب میں اس کا عام رواج ہے۔
3 بوسۂ شفقت، جیسے اولاد والدین کا بوسہ لے۔
4 بوسۂ شہوت، جیسے خاوند بیوی کا بوسہ لینا۔
5 بوسۂ محبت، جیسے بھائی، بھائی کا بوسہ لینا۔‘‘
باب کتابت الحدیث کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث وہ بیان کی ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صحیفے کا ذکر ہے اور اس میں ’’ولا یقتل مسلم
|