کہ یہ جادو کا اثر ہے۔
کتاب العلم میں ’’باب التناوب في العلم‘‘ کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے، جس میں واقعۂ ایلاء کو اختصاراً بیان کیا ہے۔ حضرت الشیخ رحمہ اللہ نے اس بحث کے دوران میں فرمایا کہ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ مشہور ہو گیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات کو طلاق دے دی، حالانکہ یہ محض افواہ تھی، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اولاً جس نے یہ خبر پھیلائی وہ منافق ہو گا۔ اس سے شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس دور میں راوی کے قیاس پر حدیثیں بنا لی جاتی تھیں۔ لہٰذا یہ دیکھ لینا چاہیے کہ روایت میں قیاسِ راوی کا کتنا حصہ ہے۔[1]
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، حالانکہ یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک تاریخی واقعہ ہے، افواہ خواہ جس نوعیت کی ہو، اس کی تحقیق ہوتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ﴾ [الحجرات: ۶]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواجِ مطہرات سے حسنِ سلوک اور ان سے مودت و محبت کے طریقے کے بالکل برعکس ایک ماہ تک علاحدگی نے یہ شبہ ڈالا کہ شاید آپ نے ازواجِ مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ یہ بھی بعید نہیں کہ اولاً کسی منافق نے یہ افواہ اڑا دی ہو، لیکن اس کا تعلق حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں، ایک واقعے سے ہے۔ اسی واقعے کی تحقیق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی تو حقیقتِ حال واضح ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواجِ مطہرات سے ایک ماہ تک علاحدہ رہنا مسلّم ہے۔ قیاس یا افواہ کا تعلق صرف
|