شریک قاضی ہے۔ جواباً راقم نے پھر جسارت کرتے ہوئے پہلی بات دہرا دی تو حضرت حافظ صاحب خاموش ہو گئے۔
اگلا دن آیا تو حسبِ معمول خطبۂ مسنونہ پڑھنے کے فوراً بعد اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’کل جو تم نے کہا تھا وہ صحیح تھا۔ یہ راوی شریک قاضی نہیں، بلکہ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر ہے۔ وہ گو صدوق ہے، مگر اس سے خطائیں بھی ہوئی ہیں اور اس کی اس روایت کے کچھ الفاظ میں محدثین نے کلام کیا ہے۔‘‘
اس سے آپ حضرت کی منکسر المزاجی اور وسعتِ ظرفی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
’’باب حلاوۃ الإیمان‘‘ کے تحت گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایمان کی مٹھاس حقیقتاً و حساً بھی ہوتی ہے اور اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سیئات سے نفرت اور حسنات پر رغبت ہو، اس سے روح میں تازگی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے اور مومنِ صادق کے دل میں اعمالِ صالحہ کی بنا پر ایک نور پیدا ہو جاتا ہے اور اسے سیئات کی بدبو اور حسنات کی خوشبو کا بھی بسا اوقات احساس ہونے لگتا ہے ’’ذلک فضل اللّٰه یؤتیہ من یشاء‘‘ اس سلسلے میں حضرت مرحوم نے متعدد دلائل ذکر فرمائے۔ من جملہ دلائل میں سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا ذکر بھی فرمایا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ سخت بدبو اٹھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس چیز کی بدبو آرہی ہے؟ یہ بدبو ان لوگوں کے منھ سے آرہی ہے جو مسلمانوں کی غیبت کر رہے ہیں۔‘‘
|