محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کے اسی وصف کی بنا پر اصولِ حدیث میں ایک مستقل نوع ’’روایۃ الأکابر عن الأصاغر‘‘ کا اضافہ ہوا۔ استاد خواہ کتنے اوصاف و کمالات کا حامل کیوں نہ ہو، ہوتا تو وہ آخر انسان ہے۔ سہو و نسیان سے آخر محفوظ کون رہا ہے؟ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فرمان ہے: ’’من ذا سلم من الوھم؟‘‘ (لسان المیزان: ۱/۱۷) استاد سے اس فطری تقاضے کی بنا پر کہیں سہو ہو جاتا اور بھری مجلس میں بھی اگر شاگرد استادِ محترم کو ٹوکنے کی جسارت کر لیتا تو کوئی محدث نہ خفت محسوس کرتا اور نہ شاگرد سے اظہارِ ناراضی ہی کرتا، کیوں کہ ان کا بنیادی مقصد علم کی خدمت تھا، اپنی ناموری اور شہرت کا وہاں کوئی تصور نہ تھا۔ ہمارے حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کی زندگی اس اعتبار سے بھی محدثین کا نمونہ تھی۔ چنانچہ ایک بار صحیح بخاری کے درس کے دوران میں جب ’’کتاب المناقب‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیثِ معراج آئی، جسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے شریک بن عبداللہ روایت کرتے ہیں تو اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس حدیث میں شریک بن عبداللہ کو وہم ہوا ہے۔ حافظے کی کمزوری کے باعث روایت کے الفاظ ضبط نہیں رکھ سکے۔ جب وہ کوفہ کے قاضی منتخب ہوئے تو ان کے حافظہ میں تغیر واقع ہو گیا تھا۔ اس میں تقدیم و تاخیر کے علاوہ ’’ثم دنا فتدلی‘‘ کی جو تفصیل و تعبیر کی ہے اس پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے۔‘‘
بات مکمل کر چکے تو راقم آثم نے جسارت کی، جناب! یہ شریک بن عبداللہ النخعی القاضی نہیں، بلکہ شریک بن عبداللہ ابن ابی نمر ہے۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تو شریک قاضی سے کوئی روایت ہی نہیں لی۔[1] مگر حافظ صاحب نے فرمایا نہیں یہ
|