10. الفصل العاشر: سنن و نوافل کی قضا کے بیان میں، نیز صبح کی سنتوں کی سورج نکلنے کے بعد قضا کے بیان میں۔
اندازِ بیاں یہ ہے: پہلے بالاسناد حدیث ذکر کرتے ہیں، پھر فنی اور اصولی نقطۂ نظر سے اس پر نقد و تبصرہ فرماتے ہیں۔ کتبِ احادیث کی اسانید و متون میں اگر تصحیف و تحریف واقع ہوئی ہو تو اس پر متنبہ فرماتے ہیں اور اگر مسئلے میں فقہا کا اختلاف ہے تو فریقین کے ادلہ ذکر کرتے ہوئے اپنا ترجیحی فیصلہ دیتے ہیں اور وجوہِ ترجیح کو تفصیل سے ذکر کرتے ہیں، بلکہ بعض مقامات تو ایسے ہیں جو اجتہادی شان لیے ہوئے ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ جب صبح کی سنتیں نمازِ فرض سے پہلے نہ پڑھی جا سکیں تو کیا انھیں طلوعِ شمس کے بعد پڑھنا اولیٰ ہے یا فرضِ نماز کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا اولیٰ ہے تو اس کے متعلق فرماتے ہیں:
’’الأولیٰ لمن لم یصل قبلہ أن یصلیھما بعد الفرض قبل الطلوع لأن فعلھما قبل الطلوع یکون في وقت الأداء وأما بعد الطلوع فیکون في وقت القضاء الخ‘‘[1]
’’اولیٰ یہ ہے کہ فرضِ نماز کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے پڑھنا اولیٰ و افضل ہے، کیوں کہ طلوعِ شمس سے پہلے ان کی ادائیگی وقتِ ادا میں ہو گی اور سورج نکلنے کے بعد ان کی ادائیگی وقتِ قضا میں ہو گی۔ کیوں کہ سنن کے اوقات نمازِ فرض کے آخری وقت تک ممتد ہوتے ہیں۔‘‘
یہ بات بدیہی ہے کہ طلوعِ شمس کے بعد فرض بھی قضا ہیں۔ اس لیے اگر سنتوں کی ادائیگی وقتِ ادا میں ہو تو اولیٰ ہے۔
|