ساری کتاب اسی طرح کے مختلف علمی اور فنی مباحث سے بھری ہوئی ہے اور آخر میں اصل مسئلے کے متعلق فیصلہ یہ دیتے ہیں۔
’’فرض نماز کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے سنتوں کی ادائیگی ضروری ہے، کیوں کہ اس کی تاکید میں آیا ہے کہ صبح کی سنتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہیں اور جو کوئی سنتیں نہیں پڑھتا تاآنکہ سورج نکل آیا تو اسے چاہیے کہ طلوعِ شمس کے بعد بھی سنتوں کی قضا دے اور جن حضرات نے کہا ہے کہ سنن کی قضا نہیں ان کا قول ضعیف اور مرجوح ہے جس پر کوئی دلیل و برہان نہیں۔‘‘[1]
اس کتاب کی قدر و منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس پر ان کے شیخ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ نے تقریظ لکھی اور اس کی تحسین کی اور ان کے علاوہ مولانا محمد عبدالرحمان صاحب غازی پوری رحمہ اللہ نے اس پر ایک طویل مدحیہ قصیدہ لکھا جو کتاب کے آخر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۳۰۶ھ میں مطبع انصاری دہلی سے بڑے سائز کے ۶۸ صفحات میں شائع ہوئی۔ جس کے ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ کی ’’خلق افعال العباد‘‘ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی ’’کتاب العلو‘‘ بھی مطبوع ہے اور اس کے بعد ’’ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد‘‘ سے اس ناکارہ ہی کی تحقیق و تعلیق سے ۱۹۷۵ء میں دوسری بار ۲۸۶ صفحات میں شائع ہوئی۔ مولانا محمد عزیر شمس صاحب نے لکھا ہے کہ اس کا خطی نسخہ خود حضرت مؤلف کے خط سے خدا بخش پٹنہ لائبریری میں محفوظ ہے جو کہ ۱۸۵ اوراق پر مشتمل ہے۔ ’’حیاۃ المحدث‘‘ (ص: ۷۳) یہاں یہ بات لطیفے سے خالی نہیں کہ رضا کحالہ نے ’’معجم المؤلفین‘‘ (۹/۶۸) میں محدث ڈیانوی کی اس کتاب کا ذکر کیا ہے اور آپ کو حنفی المسلک قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
|