اندازہ فرمائیے خود مولانا ڈیانوی رحمہ اللہ حدیث میں حک و اضافہ کو کس قدر مذموم قرار دیتے ہیں اور اس کے مرتکبین پر کس طرح اظہارِ ناراضی فرماتے ہیں، لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ علمائے احناف مثلاً: ابو الحسن امروہی، میر حسن نعمانی وغیرہ نے جب المستدرک کی طباعت کا بیڑا اٹھایا تو متن ہی میں ’’لا یسلم في آخرھن‘‘ کے الفاظ داخل کر دیے، حالانکہ ’’فتح الباري‘‘ (۲/۳۸۵) ’’السنن الکبریٰ للبیہقي‘‘ (۳/۲۸) ’’تلخیص المستدرک‘‘ (۱/۱۱۶) ’’معرفۃ السنن والآثار، سبل السلام‘‘ (۲/۶) ’’فتاویٰ مولانا عبد الحي لکھنوي (۱/۱۸۳) ’’التلخیص الحبیر‘‘ (۱/۱۱۶) ’’شرح الزرقاني علی المواہب‘‘ میں المستدرک کے حوالے سے یہی روایت ’’لا یقعد إلا في آخرھن‘‘ کے الفاظ سے منقول ہے۔ بلکہ علامہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’راجعت ثلاث نسخ للمستدرک فلم أجدہ فیہا بلفظ الزیلعي وإنما فیھا ’’وکان لا یقعد……وظني‘‘ أنہ لا بد أن یکون في نسخۃ باللفظ الذي حکاہ الزیلعي فإنہ متثبت جداً في النقل‘‘[1]
’’میں نے مستدرک کے تین خطی نسخے دیکھے ہیں۔ میں نے ان میں ان الفاظ سے ’’لا یسلم الخ‘‘ یہ روایت نہیں دیکھی، جن الفاظ سے زیلعی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے۔ ان میں ’’لا یقعد الخ‘‘ ہے میرا خیال ہے کہ ضرور کسی نسخہ میں ’’لا یسلم‘‘ کے الفاظ ہوں گے۔ جنھیں زیلعی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، کیوں کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نقل میں نہایت
|