Maktaba Wahhabi

330 - 462
المستدرک کے ایک نسخے کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جو شیخ حسن علی محدث لکھنوی، جو کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے تلامذہ میں سے تھے، کی زیرِ نظر رہ چکا تھا۔ اس میں یہ روایت دیکھی جس میں ’’لا یقعد‘‘ کی جگہ بیاض تھا۔ ’’یعنی اس نسخے میں نہ تو ’’لا یقعد‘‘ کے الفاظ تھے اور نہ ہی ’’لا یسلم‘‘ کے، جب علمائے احناف میں سے کسی ایک نے اس نسخے کو نقل کروایا تو میں نے انھیں لکھا کہ اس اصل نسخہ میں ’’لا یقعد‘‘ کے الفاظ کی جگہ بیاض ہے۔ شاید کاتب سے یہ الفاظ رہ گئے ہیں تو انھوں نے مجھے جواب دیا کہ جو بات تم کہتے ہو درست ہے۔ پھر میں نے انھیں لکھا کہ یہاں ’’لا یقعد‘‘ کے الفاظ ہونے چاہیے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو میں نے کہا کہ علما نے اس روایت کو یوں ہی نقل کیا ہے اور یہ روایت انہی الفاظ سے المستدرک کے نسخے میں مشہور ہے، لیکن اس نے میری بات پر بھروسا نہ کیا۔ اس وقت شرح زرقانی علی المواہب کے علاوہ میرے پاس اور کوئی کتاب بھی نہ تھی اور وہ تھی بھی اسی کے پاس۔ میں نے اس کی آٹھویں جلد طلب کی اور روایت کی نشاندہی کر دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہاں اسی طرح بیاض رہنے دو اور اس کے حاشیہ میں لکھ دو کہ اصل نسخہ میں یہاں بیاض تھا۔ البتہ شرح زرقانی میں یوں ہے، لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا اور اس کے حاشیے میں یہ لفظ لکھ دیے: ’’لا یسلم إلا في آخرھن‘‘[1] إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
Flag Counter