Maktaba Wahhabi

329 - 462
کی (۴/۱۲۳) پر عبید بن محمد کے ترجمے میں بھی حاشیہ دارقطنی سے عبارت منقول ہے۔ تہذیب میں بھی اس کا ذکر ہے تو کیا ان سب کو مشکوک قرار دیا جائے۔ امام دارقطنی کے حاشیے کا یہ مکمل کلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’إتحاف المھرۃ‘‘ (۳/۴۸۷) میں نقل کیا ہے، مگر یہ نہیں کہا کہ یہ حاشیہ سنن میں ہے۔ یہ مکمل کلام متن میں ہے یا حاشیہ میں یہ بہر نوع امام دارقطنی ہی کا کلام ہے۔ ’’کلھم ثقات‘‘ کو تسلیم کرنا مگر ’’والصواب موقوف‘‘ کو تسلیم نہ کرنا ’’یؤمنون ببعض الکتاب ویکفرون ببعض‘‘ کا مصداق ہے۔ حاشیے کی اس عبارت کو متن میں داخل کرنے کی ذمہ داری محدث ڈیانوی رحمہ اللہ پر نہیں ڈالی جا سکتی، تاوقتیکہ یہ ثابت نہ کر دیا جائے۔ ان کے پیشِ نظر جو تین نسخے تھے ان میں یہ عبارت حاشیہ ہی میں تھی۔ ورنہ یہ جسارت رجماً بالغیب کے قبیل سے ہو گی۔ محدث موصوف رحمہ اللہ کی شان اس قسم کی آلودگیوں سے پاک ہے وہ تو خود ان اصحاب پر سخت رنجیدہ ہیں جو دیدہ دانستہ متونِ حدیث میں حک و اضافہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ ان کے درج ذیل بیان سے کیا جا سکتا ہے: ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث جسے امام حاکم نے ابان بن یزید العطار عن قتادہ عن زرارۃ بن اوفی عن سعد بن ہشام کے واسطے سے ’’لا یقعد إلا في آخرھن‘‘ کے الفاظ سے نقل کیا ہے، جیسا کہ المستدرک کے اصل نسخے میں اور امام بیہقی کی معرفۃ السنن والآثار کی طرف مراجعت سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر، فتح الباری میں اور المواہب اللدنیہ اور اس کی شرح میں علامہ زرقانی نے یہی لفظ المستدرک سے نقل کیے ہیں اور مجھے
Flag Counter