میں نہیں، جیسا کہ حافظ نے تلخیص میں کہا ہے یہی وجہ ہے علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے تخریج ہدایہ میں یہ لفظ ذکر نہیں کیے، حالانکہ وہ مکمل الفاظ نقل کرنے میں بڑے حریص ہیں، جیسا کہ ان کی معروف عادت ہے۔ گویا امام دارقطنی رحمہ اللہ کو اس کے وقف پر اعتماد نہ تھا۔ اس لیے حاشیے میں لکھا کہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، مگر بعض نے اس حاشیہ کو متن میں داخل کر دیا۔ جیسا کہ مطبوعہ نسخہ میں ہے اور یہ فعل اچھا نہیں۔ ہمیں اس بات کی خبر ہمارے شیخ (علامہ کشمیری رحمہ اللہ ) نے دی ہے۔‘‘
جہاں تک اس غلطی کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ بہت برا فعل ہے کہ حاشیے کی عبارت کو متن میں داخل کر دیا گیا، مگر انھوں نے جو اپنے شیخ علامہ کشمیری کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ’’والصواب موقوف‘‘ حاشیہ کے الفاظ ہیں یہ بات علامہ کشمیری نے العرف الشذی (ص: ۸۶) میں فرمائی ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’قال الدارقطني رجالہ ثقات وکتب في الحاشیۃ والصواب أنہ موقوف‘‘
حالانکہ امر واقع یہ ہے التلخیص میں صرف یہ نہیں کہ حاشیۃ السنن میں ’’والصواب انہ موقوف‘‘ ہے بلکہ اس میں ’’کلھم ثقات‘‘ کے الفاظ بھی حاشیے ہی میں ہیں۔ جیسے کہ ہم التلخیص کی مکمل عبارت پہلے نقل کر آئے ہیں۔ یہی مکمل عبارت ’’لسان المیزان‘‘ (۴/۱۵۲) اور ’’تہذیب‘‘ (۷/۱۵۲) میں عثمان بن محمد انماطی کے ترجمے میں ہے۔ مگر علامہ کشمیری اور ان تلمیذ رشید ’’رجالھم ثقات‘‘ کے الفاظ کو تو متن میں ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ’’والصواب موقوف‘‘ کو حاشیہ کے الفاظ کہہ کے مشکوک بنا رہے ہیں۔ السنن پر امام دارقطنی کے حواشی اور بھی ہیں۔ ’’لسان المیزان‘‘
|