بھی نظر آتا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے والے احباب کو ان امور کا خیال رکھنا چاہیے۔ حال ہی میں نشر السنۃ ملتان کی طرف سے ’’التعلیق المغنی‘‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی شائع ہو گیا ہے، جس پر سنِ طباعت مذکور نہیں، لیکن یہ غالباً ۱۴۰۰ھ کا ہے۔ یہ ایڈیشن دراصل مصری نسخہ کا ہی عکس ہے، ناشرین حضرات سے ہم نے گزارش بھی کی کہ اس میں نسبتاً ہندی نسخہ کے اغلاط زیادہ ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہندی نسخہ کو شائع کیا جائے اور ہمارے ہاں یہی نسخہ حوالہ جات میں بھی متداول ہے۔ مگر بعض فنی وجوہ کی بنا پر انھوں نے مصری نسخے ہی کو شائع کرنا مناسب سمجھا۔ ہمارے ہاں چونکہ سنن دارقطنی تقریباً ناپید تھی، اس لیے ناشرین حضرات بہرحال شکریہ کے مستحق ہیں کہ بہترین کاغذ میں شائع کر کے سستے داموں اہلِ علم کے ہاتھوں ہاتھ پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔
اس کے بعد ۱۴۲۰ھ میں نشر السنۃ ملتان نے دوسری بار اس کی طباعت کا اہتمام کیا جس میں شیخ مجدی حسن کی تخریج کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ۱۴۲۲ھ میں السنن کا نسخہ شیخ عادل احمد اور شیخ علی محمد کی تحقیق و تعلیق سے دار المعرفۃ بیروت سے تین جلدوں پر مشتمل شائع ہوا ہے جسے انھوں نے السنن کے مطبوعہ نسخہ کے ساتھ ساتھ تین مخطوط نسخوں کے تقابل سے شائع کیا ہے۔
اس ضمن میں یہاں یہ بات بھی یقینا فائدے سے خالی نہ ہو گی کہ سنن دارقطنی میں باب التیمم کے تحت (ص: ۱۸۱) پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے جو روایت ’’ضربۃ للذراعین إلی المرفقین‘‘ کے الفاظ سے منقول ہے۔ اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رجالہ کلھم ثقات والصواب موقوف‘‘ سنن کے مطبوعہ نسخوں میں یہ کلام اسی طرح متن ہی میں مذکور ہے، لیکن
|