Maktaba Wahhabi

325 - 462
خویلد بن شریح بن عمرو‘‘ یعنی دو نسخوں میں اسی طرح ابن شریح ہے۔ مگر دراصل وہ ابو شریح ہے، جیسا کہ بعد کی روایت میں ہے، لیکن ابن شریح بھی صحیح ہے، جب کہ کہا گیا ہے کہ ابو شریح کا نام خویلد بن شریح بن عمر ہے، لیکن طبع ثانی میں اول الذکر مقام پر اصل نسخہ کے بجائے عمرو بن دینار ہی نقل کر دیا اور ثانی الذکر مقام میں ’’ابن شریح‘‘ کی جگہ ’’ابو شریح‘‘ کر دیا گیا ہے اور بس، دیکھیے علی الترتیب (ص: ۹۵، سطر ۵۔ ص: ۹۶، سطر ۱۴، ج ۳) جس سے ایک طرف تو محدث ڈیانوی کی دیانت و امانت کا ثبوت باہم پہنچتا ہے تو دوسری طرف طبع ثانی کے مصحح جناب عبداللہ ہاشم صاحب کی تساہل پسندی کا بھی علم ہوتا ہے اور اگر سنن کی طبع اول میں کوئی غلطی بشری تقاضے کے مطابق رہ بھی گئی ہے تو اس پر قطعاً غور نہیں کیا گیا۔ مثلاً: ’’باب صلاۃ المریض جالسا بالمأمومین‘‘ کے تحت پانچویں حدیث کی سند یوں ہے۔ ’’عن عبداللّٰه بن أبي السفر عن عبد اللّٰه بن الأرقم بن شرحبیل عن ابن عباس الخ‘‘ طبع اول و ثانی میں یہ سند یوں ہی منقول ہے۔ حالانکہ صحیح عبدلله بن ابی السفر عن الارقم بن شرحبیل ہے، جیسا کہ ’’مسند احمد‘‘ (۲/۲۰۹) میں ہے۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے مسند بزار سے بھی یہ روایت بواسطہ الارقم ہی ذکر کی ہے۔ ’’نصب الرایہ‘‘ (۲/۵۱) معلوم یوں ہوتا ہے کہ کاتب کی نظر عبداللہ بن ابی السفر لکھنے کے بعد پھر عبداللہ پر جا لگی اور اس کے بعد عبداللہ بن الارقم بن شرحبیل لکھ دیا ہے۔ یاد رہے کہ نصب الرایہ کے حاشیہ میں سنن دارقطنی کے حوالے سے جو عبدالملک بن الارقم لکھا گیا ہے وہ بھی غلط ہے۔ صحیح عبداللہ بن الارقم ہے۔ ہاں تو بات ’’التعلیق المغنی‘‘ کی طبع ثانی کے متعلق تھی کہ شیخ عبداللہ صاحب نے اس میں خاصا تساہل سے کام لیا ہے اور ان کا یہ تساہل معجم طبرانی صغیر طبع ثانی میں
Flag Counter