گیا، بلکہ اختلافِ نسخے کو تو بالکلیہ نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس سے بسا اوقات عبارت میں عجیب الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً: ’’باب القھقھۃ في الصلاۃ وعللھا‘‘ کے تحت امام دارقطنی رحمہ اللہ ایک جگہ ابو العالیہ رحمہ اللہ کی روایت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کان أربعۃ یصدقون من حدیثھم ولا یبالون ممن یسمعون الحدیث: الحسن وأبو العالیۃ وحمید بن ھلال قال الشیخ ولم یذکر الرابع‘‘
محدث ڈیانوی رحمہ اللہ یہاں ’’ھلال‘‘ پر نسخے کی علامت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ھلال و داود بن أبي ھند‘‘[1]
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۳/۵۲) میں حمید بن ہلال کے ترجمے میں صراحت کی ہے: ’’شیخ نے تین کا ذکر کیا ہے اور چوتھے راوی کا ذکر نہیں کیا، البتہ سنن کے بعض نسخوں میں داود بن ابی ہند کا نام بھی ملتا ہے۔‘‘ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس مصری طبع میں چوتھے راوی (یعنی داود بن ابی ہند) کو متن میں ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا گیا ہے۔ ’’ولم یذکر الرابع‘‘ ملاحظہ ہو (۱/۱۷۲) اسی طرح طبع ہند کے (ص: ۳۲۸) سطر بیس میں ’’أخبرنا عمرود بن دینار‘‘ پر محدث ڈیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ھکذا في النسخ الموجودۃ لعلہ عمرو بن دینار‘‘ (ص: ۳۲۹، سطر: ۸) میں ’’عن ابن شریح الخزاعي‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ ھکذا في النسختین وھو أبو شریح کما في روایۃ أخری لکن یصح ابن شریح أیضا بقول من قال اسم أبي شریح
|