ظاہر ہے کہ اس حدیث کی موافقت ان دونوں ابواب سے ثابت نہیں ہوتی۔ یہ دیکھ کر جامع الاصول لابن الاثیر رحمہ اللہ کی طرف مراجعت کی تو اس میں انھوں نے اسے ابو داود کے بجائے صحیح مسلم کی طرف منسوب کیا۔ لیکن مجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے المنتقی میں لکھا ہے: ’’أخرجہ الجماعۃ إلا البخاري والترمذي‘‘۔ اسی طرح شیخ کمال الدین الدمیری نے حاشیہ ابن ماجہ میں اسے ابو داود وغیرہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ جس سے میرا اشکال مزید تقویت اختیار کر گیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے تحفۃ الاشراف کے مطالعے کی نعمت سے نوازا تو وہاں اسے مسلم، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ کی طرف منسوب پایا اور ساتھ ہی یہ تصریح بھی مل گئی کہ ابو داود کی یہ روایت ابو بکر بن داسہ کی ہے، جس سے میرا اشکال رفع ہو گیا کہ یہ روایت فی الاصل ابن داسہ کی ہے۔ لیکن نساخ نے اسے لؤلوی کے نسخے میں درج کر دیا ہے۔‘‘
اس قسم کے دیگر متعدد مقامات ایسے ہیں، جہاں انھوں نے متن کی تصحیح میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ لیکن اس تحقیق و تنقیح کے باوجود بعض مقامات مزید غور و فکر کے محتاج ہیں۔ اس فن میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تنقیح و تہذیب سے کون واقف نہیں۔ لیکن اس سلسلے میں وہ بھی اس نوعیت کی فروگزاشتوں سے محفوظ نہیں رہے۔ بالآخر کوئی ہے بھی جس کا قدم اس چشمہ صافی کی غواصی میں ڈگمگانے سے محفوظ رہا ہو۔ مولانا ڈیانوی رحمہ اللہ بھی آخر انسان تھے۔ ان سے بھی اگر اس قسم کی کوتاہی واقع ہوئی تو کوئی عجیب بات نہیں۔ مثلاً ’’أبو داود: باب صلاۃ اللیل‘‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت جو بواسطہ ابو سلمہ اور علقمہ بن وقاص
|