سہارا لینا پڑے۔
12. جن روایات کو امام ابو داود رحمہ اللہ نے معلق بیان کیا ہے دوسری کتبِ حدیث سے ان کا اتصال مع بیانِ صحت و ضعف۔
13. جو روایات مختصر ہیں اور احادیث کی دوسری کتابوں میں وہ مفصل ہیں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
14. حدیث کی تصحیح و تضعیف اور ترجمۃ الباب سے مناسبت و عدمِ مناسبت اور اسی نوعیت کے دیگر مباحث میں امام ابو داود کے موقف سے اختلاف اور اس پر دلائل۔
یہ ہیں وہ امور جن کا اس شرح میں اہتمام کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان مباحث میں سے ہر ایک کی ایک مثال پیش کرتے تو بات لمبی ہو جاتی، اس لیے ہم قصداً اس سلسلے کو نظر انداز کرتے ہیں۔
الغرض یہ شرح اسی قسم کے گوناگوں فوائد و تنقیحات پر مشتمل ہے۔ رجال اور اسانید کے بارے میں تحقیقی انداز اختیار کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کا محدث اسناد و اطراف پر بحث کر رہا ہے۔ اگر سنن ابو داود کے شارحین سے کوئی تسامح ہوا ہے تو اس کی وضاحت بھی فرماتے ہیں، مثلاً پہلی حدیث کے تحت مولانا سراج احمد السرہندی نے ترمذی کے ترجمہ میں جو ’’ابو سلمۃ‘‘ راوی کو منصور بن سلمۃ البغدادی کہہ دیا ہے۔ مولانا مرحوم نے اس پر تعاقب کیا اور فرمایا یہ منصور بن سلمۃ نہیں، بلکہ ابو سلمۃ بن عبدالرحمان الزھری المدنی ہے۔ منصور تو دسویں طبقہ کا راوی ہے وہ صحابی سے روایت کیسے کر سکتا ہے؟! بلکہ کبھی سنن ابو داود پر استدراک اور تبتع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً امام ابو داود ’’باب الخاتم یکون في ذکر اللّٰه تعالیٰ یدخل بہ الخلاء‘‘ میں ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’لم یروہ
|