سعی کو قبول فرمائے۔‘‘
یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ابو داود کی تمام شروح سے یہ فائق ہے، جس میں حسبِ ذیل خصوصیات ایسی ہیں، جو کم سے کم دوسری شرح میں نظر آتی ہیں۔
1. اسانید کی وضاحت، یعنی روایتِ حدیث کے تراجم مع بیانِ کنیت نسب، اور لقب کے نیز مشکل اسما کے ضبط اور ان کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی صراحت۔
2. سند یا متن میں اضطراب ہو تو اس کی وضاحت۔
3. مشکل الفاظ کے معنی۔
4. اماکن کی نشاندہی۔
5. حدیث کی تشریح خوب شرح و بسط سے اور مسائلِ فقہیہ جو اس سے مستنبط ہوتے ہیں۔ ان کے بیان کرنے میں۔
6. فقہائے کرام کے مابین مختلف فیہ فقہی اختلاف پر سیر حاصل بحث اور قولِ راجح کی نشاندہی مع بیان دلائل۔
7. حدیث کی تخریج مع بیانِ صحت و ضعف۔
8. حدیث ترجمۃ الباب کے مؤیدات و شواہد مع بیانِ صحت و ضعف۔
9. اختلاف الرواۃ والنسخ۔
10. اصولی و فنی مباحث کی توضیح و تشریح۔
11. فقہی اختلاف کو بیان کرتے ہوئے، ائمۂ دین میں سے جس کسی کے قول کو دلائل و براہین کے قریب پایا اسے قبول کیا اور مخالفین پر طعن اور ان کے استخفاف سے احتراز کامل فرمایا۔ مقلدین حضرات کی طرح نہیں کہ ہر صورت اپنے فقہی مسلک کو ہی صحیح ثابت کرنا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے دور دراز تاویلات ہی کا
|