کوئی ایک قبضے سے کم ڈاڑھی رکھے گا وہ تارکِ مستحب ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق بعض دوستوں نے سوال کیا کہ اس مسئلے میں قولِ فیصل کیا ہے؟ تاکہ اس سلسلے میں اوہام کا ازالہ ہو جائے۔‘‘
اس کے بعد علامہ موصوف نے احادیث و آثار سے اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کی ہے اور رسالے کے آخر میں جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ حسبِ ذیل ہے:
’’وبھذا کلہ تبین أن أصل الإعفاء واجب کما أوضحنا وتارکہ تارک واجب یستحق ما یستحقہ تارک الواجب، ولو تنزل عن الوجوب فلا أقل من أنہ سنۃ مؤکدۃ یستحق تارکہ ما یستحق تارک السنۃ المؤکدۃ ولیس بمندوب عادي کما زعم صاحب الرسالۃ بل ھو أمر تعبدي شرعہ اللّٰه لأنبیائہ وحثھم علیہ إلخ‘‘
’’اس بحث سے ظاہر ہو گیا ہے، ڈاڑھی کا بڑھانا واجب ہے، جس طرح کہ ہم نے واضح کر دیا ہے اور اس کا تارک اسی سزا کا مستحق ہے جو تارکِ واجب کے لیے مقرر ہے اور اگر وجوب سے کم کہا جائے تو پھر یہ سنتِ مؤکدہ سے کم نہیں اور اس کا تارک اسی سزا کا مستحق ہے جو تارکِ سنتِ مؤکدہ کے لیے ہے اور نہ یہ مندوب ہے اور نہ ہی سنن عادیہ سے ہے، جیسا کہ صاحبِ رسالہ کا خیال ہے۔ بلکہ یہ امر تعبدی ہے، جس کا اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو حکم فرمایا۔‘‘
محترم شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ نے بتلایا ہے کہ اس کا قلمی نسخہ سالارِ جنگ میوزیم حیدر آباد دکن میں ہے۔ شیخ بدیع الدین الراشدی کی تحقیق اور علمی مقدمے کے ساتھ
|