Maktaba Wahhabi

59 - 458
اور انگریز پرستوں سے برسرِ پیکار رہے۔ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے انہیں فرمایا کہ مجھے کانگرس میں آپ کی ضرورت ہے تو آپ نے مجلسِ احرار سے علیحدگی اختیار کی اور پنجاب کانگریس کے صدر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1946ء میں جب ملک کی تقسیم کا مطالبہ زوروں پر ہوا تو وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور تقسیم کے بعد مسلم لیگی ایم ایل اے کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اُنہوں نے عمر بھر ملک و ملت کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں۔ سازوسامان کے ساتھ ہم نے محمود غزنوی کو نکلتے دیکھا اور بے سروسامانی میں ہم نے داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو نکلتے دیکھا۔ وہ قیدی بنانے کے لیے نکلا اور یہ قیدی بننے کے لیے نکلے۔ مولانا نے ہمیشہ اپنے مفید مشوروں سے اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کی اور اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا۔ مسجد شہید گنج کی تحریک کے زمانے میں اُنہوں نے ماسٹر تارا سنگھ جی کی صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا مشورہ دیا جس کی تائید سید حبیب مرحوم نے کی، لیکن مولانا ظفر علی خان مرحوم نے کسی ’’ذمہ دار افسر سرکار‘‘ کے مشورہ کو مشعلِ راہ بنایا اور راضی نامہ سے انکار کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آج تک منزلِ مقصود کو حاصل نہ کر سکے۔ اسی طرح اور مسائل میں ہمارے بہت سے دوستوں کو سلجھانے کی بجائے اُلجھانے کا بہت شوق ہے جس کے باعث مزعومہ ’’کامیاب سیاستدان‘‘ اپنی ناکامیوں کے باوجود کامیاب سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ یہ خدا کی شان ہے کہ آزادی کی جنگ لڑنے والے انگریز کے جانے کے بعد بھی ناکام سمجھے جائیں اور انگریز کے بے دام و بادام غلام اپنی ناکامیوں کے باوجود کامیاب سمجھے جائیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا رحمہ اللہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہماری اور ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے۔
Flag Counter