Maktaba Wahhabi

445 - 458
تقسیم ملک کے بعد دارالعلوم تقویۃ الاسلام کی دو سالہ رپورٹ اور گوشوارہ بابت 48-1947ء و 49-1948ء چھپا۔ اس کے شروع میں حضرت والد علیہ الرحمہ نے ایک مفصل مضمون لکھا جس میں دینی درسگاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا اور مدرسہ غزنویہ کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم کا تعارف کرانے کے لیے حضرت والد علیہ الرحمہ ہی کے اس مضمون سے اقتباسات نقل کیے جائیں۔ ’’آج پاکستان اور ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے کچھ باقیات صالحات اگر موجود ہیں تو یقیناً وہ صرف علماء کرام اور عربی درسگاہوں کی بدولت موجود ہیں، اگر 1857ء کے انقلابی دور کے بعد چھوٹے بڑے عربی مدارس قائم نہ ہو گئے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا بے پایاں فضل و کرم اور اس کی تائید و نصرت ان علماء ربانیین کے شامل حال نہ ہوتی جنہوں نے زمانہ کے ہر طرح کے نامساعد حالات کے باوجود، مسجدوں کی چار دیواروں اور گھاس پھونس کے جھونپڑیوں میں بیٹھ کر کتاب و حکمت، قرآن و حدیث کے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا تو آپ دیکھتے کہ ہماری اسلامی تہذیب کب کی انگریزی یونیورسٹیوں کے ذبح خانوں (کالجوں) میں ذبح ہو چکی ہوتی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں اس کا سراغ نہ ملتا۔ یہ عربی مدارس اور اُن کے فیض یافتہ طلباء اور علماء کا ہی فیضان ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے محبوبیت اور شعائر اسلامی کے لیے جذباتِ احترام
Flag Counter