ردیف وار کیا ہے۔ اس انتخاب میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں: ذوق کے مرنے کی سن کر پہلے تو کچھ رُک گئے پھر کہا تو یہ کہا منہ پھیر کر اچھا ہوا ۔۔۔ وہ صبح کو آئے تو کروں باتیں میں دوپہر اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام اور پھر کہوں گر آج سے کل جائے تو اچھا جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے گر آج کا دن بھی یونہی ٹل جائے تو اچھا القصہ نہیں چاہتا میں جائے یہاں سے دل اُس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا ۔۔۔ اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام سے وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا ۔۔۔ پروانہ بھی تھا گرمِ تپش پر کھلا نہ راز بلبل کی تنگ حوصلگی تھی کہ غل ہوا ۔۔۔ جو حسد کسی کو تجھ پر ہو تو ہے یہ تیری خوبی کہ جو تو نہ خوب ہوتا، تو وہ کیوں حسود ہوتا ۔۔۔ نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا ۔۔۔ بدخصلتوں کو کرتا ہے بالا نشیں فلک اونچی ہے آشیانہ زاغ و زغن کی شاخ ۔۔۔ واں سے یاں آئے تھے اے ذوق تو کیا لائے تھے یاں سے تو جائیں گے ہم لاکھ تمنا لے کر ۔۔۔ ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن کون جائے ذوق! پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر |