یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے ۔۔۔ سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ ہم خدا تھے گر دلِ بے مدعا ہوتے ۔۔۔ شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے ۔۔۔ نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میں جو بولا کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے میران نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے ۔۔۔ کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے مدعا ہم کو انتقام سے ہے ۔۔۔ اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے عمر نے ہم سے بے وفائی کی ۔۔۔ ہر کوئی اس مقام پر دس روز اپنی نوبت بجائے جاتا ہے ۔۔۔ پاسِ ناموس عشق تھا ورنہ کتنے پلک تک آئے تھے میر صاحب رُلا گئے سب کو کل وہ تشریف یاں بھی لائے تھے ۔۔۔ کوئی رہنے والی ہے جانِ عزیز گئی گرنہ امروز فردا گئی |