تقلیدِ ائمہ فرماتے تھے: ’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تقلید سے مطلقاً انکار کرتے ہیں اور عوام کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ وہ تفسیر، حدیث اور فقہ سے بے بہرہ ہونے کے باوجود، ائمہ کرام کے اقوال کو ٹھکرا دیا کریں اور بے زمام اور بے مہار ہو کر جو چاہیں، کریں، تو وہ صریحاً غلط فہمی میں مبتلا ہے۔‘‘ ان کے فقہی موقف پر ان سے بارہا گفتگو ہوئی۔ وہ فقہائے کرام بالخصوص ائمہ اربعہ کی مساعیِ جمیلہ کو بنظرِ استحسان دیکھتے تھے۔ ایک مضمون میں اپنے فقہی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ائمہ دین نے جو دین کی خدمت کی ہے، اُمت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برا نہیں ہو سکتی۔ ہمارے نزدیک ائمہ دین کے لیے جو شخص دل میں سوءِ ظن رکھتا ہے یا زبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے، یہ اس کی شقاوتِ قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اس کے سوء خاتمہ کا خوف ہے۔ ہمارے نزدیک ائمہ دین کی ہدایت و درایت پر اُمت کا اجماع ہے۔‘‘ اس عاجز نے اپنے والدِ بزرگوار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ کے |