بالاستیعاب کیا تھا۔ حضرت مجدد صاحب علیہ الرحمہ سے انہیں خاص عقیدت تھی۔ آخری بار قید کا زمانہ مکتوبات ہی کے مطالعہ میں بسر ہوا۔ فرماتے تھے: ’’تصوف میں میرے امام شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔‘‘ ایک دن یہ بھی فرمایا: ’’شریعت کا وہ حصہ جو تزکیہ باطن سے متعلق ہے۔ اصطلاحاً تصوف کہلاتا ہے۔ شریعت سے ہٹ کر کسی تصوف کا میں قائل نہیں ہوں۔‘‘ حلول، اتحاد، وحدت الوجود اور وحدت الشہود میں فرق خوب مزے لے لے کر بیان کرتے تھے۔ وحدت الوجود کے خلاف تھے اور شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ سے انہیں طبعی مناسبت نہ تھی۔ ذوقِ عبادت اُن کی شخصیت کے بعض پہلو جو مجھے عزیز تھے، ذکر کرتا ہوں: ذکرِ الٰہی بڑی کثرت سے کرتے تھے۔ رات دو تین بجے اُٹھ کھڑے ہوتے اور مسلسل چار پانچ گھنٹے عبادت میں مشغول رہتے۔ تہجد زندگی بھر باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔ تہجد کی نماز میں بہت روتے تھے۔ اُن کے رونے کی آواز گھر والوں کو جگا دیتی تھی۔ روتے روتے اُن کی ہچکی بندھ جاتی۔ یوں معلوم ہوتا کہ کہیں چکی چل رہی ہے یا ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ بعض اوقات مصروفیتوں کا ہجوم ہوتا اور رات دیر تک جاگتے رہتے مگر ذوقِ عبادت اس قدر پختہ ہو چکا تھا اور شب خیزی کی عادت ایسی راسخ ہو چکی تھی کہ رات کے پچھلے پہر اُٹھ بیٹھتے۔ شام کی نماز کے بعد بھی بہت دیر تک ذکر میں مشغول رہتے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے: ’’رات میں لا الٰه الا الله کا ذکر کرتا تھا، تو میرے منہ سے نور نکلتا تھا۔ عجب کیفیت تھی۔‘‘ ایک دن اپنی بعض پریشانیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ یکایک اُن کے چہرے پر |