جب ان کا جسدِ مبارک لحد میں اُتار رہے تھے، یقین نہیں آتا تھا یہ وہی زندہ اور سرگرمِ عمل انسان ہے جو یوں بے حس و حرکت ہو گیا ہے۔ ما كنت احسب قبل دفنك في الثريٰ ان الكواكب في التراب تغور ما كنت آمل قبل نعشك ان اريٰ رضويٰ علي ايدي الرجال تسير ’’تیرے دفن سے پہلے مجھے گماں نہ تھا کہ چمکتے ہوئے تارے بھی مٹی میں مل جاتے ہیں۔ تیرا جنازہ اُٹھنے سے پہلے مجھے خیال نہ تھا کہ رضویٰ پہاڑ آدمیوں کے ہاتھوں پر چلے گا۔‘‘ میں قبرستان سے لوٹا تو اُن کی وہ پچھلی رات رو رو کر دعائیں مانگنے کی آواز میرے کانوں میں آ رہی تھی۔ يا باسط اليدين بالرحمه! يا واسع المغفرة! مغفرتك اوسع من ذنوبنا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بہت بڑا فقیر بہت بڑی بارگاہ میں گڑگڑا رہا ہے۔ ان کی وہ آواز میرے سامعہ سے آج بھی پیہم ٹکرا رہی ہے۔ ’’رب تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ، ربِّ هب لي من لدنك وليًا يَرثني و يَرث من آلِ عبدالله۔‘‘ کون ہوتا ہے حریفِ مئے مردافگنِ عشق ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا تیرے بعد |