چند اہم واقعات تحریکِ ختم نبوت کی تحقیقاتی عدالت میں 1953ء میں تحریک ختم نبوت اور اس کی تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے سابق چیف جسٹس مسٹر محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل ایک عدالت مقرر کی گئی۔ سب جماعتوں کے الگ الگ وکیل تھے جو تحقیقاتی عدالت کے سامنے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے۔ تحفظِ ختم نبوت کے راہنما جیل میں بند تھے۔ مذہبی جماعتوں کے متحدہ محاذ کی مجلسِ عمل کے ناظمِ اعلیٰ حضرت والد علیہ الرحمہ تھے۔ مجلسِ عمل کے وکیل مسٹر حسین شہید سہروردی مرحوم تھے اور والد علیہ الرحمہ انہیں تیاری کراتے تھے، لیکن مسئلہ میں کچھ ایسی علمی پیچیدگیاں تھیں اور اس کی نوعیت میں کچھ ایسے اُلجھاؤ تھے کہ سہروردی صاحب نے وکالت سے معذرت چاہی اور وکالت و نمائندگی کا تمام بوجھ حضرت والد علیہ الرحمہ پر آن پڑا۔ ان کی بحث اور دلائل سے متاثر ہو کر ایک دن جسٹس کیانی نے کہا: ’’اگر میرے بس میں ہوتا، تو میں آپ کو وکالت کا لائسنس دے دیتا۔ میں آپ کے دلائل سے بہت متاثر اور مستفید ہوتا ہوں۔‘‘ جسٹس منیر نے اُن سے سوال کیا: ’’کیا آپ کے دادا مرحوم کو غزنی سے اس لیے نکال دیا گیا تھا کہ وہ اہل حدیث تھے اور احناف انہیں برداشت نہیں کرتے تھے؟‘‘ حضرت نے فرمایا: ’’نہیں! اُن کو تو اس لیے نکالا گیا تھا کہ وہ بہت بڑے ولی تھے اور اُن کا حلقہ ارادت اس قدر وسیع ہو گیا تھا کہ حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ وہ کہیں حکومت پر قابض نہ ہو جائیں۔‘‘ منیر صاحب نے درحقیقت یہ سوال اس مقصد سے کیا تھا کہ وہ لوگوں پر ظاہر کریں |