حضرت عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت والد رحمۃ اللہ علیہ کے جدِ امجد للہیت، تقویٰ اور علم دین میں یکتائے روزگار تھے۔ مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے حالات قلمبند کرتے ہوئے افتتاحیہ جملہ یہ لکھا ہے: الشيخ الامام العالم المحدّث عبدالله بن محمد بن محمد الشريف الغزنوي الشيخ محمد اعظم الزاهد المجاهد الساعي في مرضاة الله المؤثر لرضوانهٖ عليٰ نفسه واهلهٖ ومالهٖ و اوطانهٖ صاحب المقامات الشهيرة والمعارك العظيمة الكبيرة [1] ’’حضرت عبداللہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی شیخ تھے، امام تھے، عالم تھے، زاہد تھے، مجاہد تھے۔ رضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں تھے۔ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان، اپنا گھر بار، اپنا مال، اپنا وطن سب کچھ لٹا دینے والے تھے۔ علماء سوء کے خلاف اُن کے معرکے مشہور ہیں۔‘‘ شیخ شمس الحق دیانوی رحمۃ اللہ علیہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کے مقدمے میں حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کی مدح و توصیف میں یوں لکھتے ہیں: انهٗ كان في جميع احواله مستغرقاً في ذكر الله عزّوجل حتيٰ |