ایک بار مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ تشریف لائے تو فرمانے لگے: ’’مفتی صاحب! تصوف کے بارے میں کوئی اچھی کتاب بتائیے۔‘‘ مفتی صاحب نے کہا: آپ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تعلیم الدین‘‘ دیکھ لیجیے۔ مولانا داؤد رحمہ اللہ نے بازار سے کتاب منگوائی تو اُس میں تصوف کا باب شامل نہیں تھا۔ اس پر مفتی صاحب نے انہیں اپنا نسخہ دے دیا اور فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اصلی صوفی تو اہل حدیث کو ہونا چاہیے کیونکہ احادیث کی کتابوں میں حسد، کینہ، کِبر، غضب وغیرہ کے ابواب آتے ہیں جن میں ان بَد عادات سے اجتناب کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کے برعکس فقہ کی کتب میں ایسے ابواب نہیں ہیں۔‘‘ اس موقعے پر مفتی صاحب نے مولانا کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’مولانا! آپ کو دیکھ کر میرا جی بہت خوش ہوتا ہے۔‘‘ مجھے خود مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ سے دلی اُنس تھا۔ وہ جب بھی تشریف لاتے، میں نہایت دلچسپی سے اُن کی باتیں سنا کرتا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ مولانا یونہی تشریف فرما رہیں اور میں اُنہیں دیکھتا رہوں۔ |