النُّورُ ﴿٢٠﴾ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ ﴿٢١﴾﴾ (سورۃ فاطر) اُس روز بہت دیر تک دونوں میں زیادہ باتیں حضرت تھانوی رحمہ اللہ ہی کے بارے میں ہوتی رہیں۔ اس موقعے پر مولانا داؤد رحمہ اللہ کہنے لگے: مجھے حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے نہایت اُنس ہے لیکن وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں بڑے سخت ہیں لیکن میں مؤخر الذکر کو اسلام کی شمشیرِ برہنہ سمجھتا ہوں۔ مفتی صاحب نے یہ سن کو تبسم فرمایا۔ آپ نے دیکھا کہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کس قدر صاف گو تھے۔ وہ اختلاف کی بات بھی واضح طور پر کہہ دیتے تھے۔ ایک روز مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ فرمانے لگے: ’’میں جب ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتا ہوں تو کبھی جی چاہتا ہے کہ درود پڑھوں اور کبھی جی چاہتا ہے کہ بعض دوسرے اذکار میں سے کچھ پڑھوں۔ اس سلسلے میں انسب کیا ہے؟‘‘ مفتی صاحب رحمہ اللہ نے کہا: یہ سوال ایک بار میرے بھی دل میں پیدا ہوا تھا اور میں نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو لکھا کہ آپ نے مجھے جو وظیفہ بتایا تھا، اُس سے فراغت کے بعد کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ فلاں ذکر کروں اور کبھی جی میں آتا ہے کہ فلاں ذکر کروں۔ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے جواب میں لکھا: یہ سب دستر خوانِ باطنی کے کھانے ہیں۔ جب ایک میز پر بہت سے کھانے پڑے ہیں تو اُن میں ترتیب قائم نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی اوراد و اذکار میں بھی طبیعت کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔ |