’’ان کے لیے زمانے نے اس وقت تک رنگ نہیں بدلا جب تک کہ موت نے ان کو اپنے قبضہ میں نہیں کر لیا‘‘ وكل جمر لنا قلوبٌ وكل ماءٍ لنا عيون ’’اب یہ حال ہے کہ دل انگارہ ہے، تو آنکھیں پانی بہا رہی ہیں یعنی اس آگ کے سوا ہمارے پاس کوئی آگ نہیں اور اس پانی کے سوا کوئی پانی نہیں ہے‘‘ دارالعلوم تقویۃ الاسلام ان تمام گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود جن کا ان چند پریشان اوراق میں ذکر کر چکا ہوں، مولانا کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے تقسیمِ ملک کے بعد دارالعلوم تقویۃ الاسلام یعنی مدرسہ غزنویہ کو جس کی بنیاد مولانا کے والد مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ نے امرتسر میں رکھی تھی، بدستور جاری رکھا اور باوجود بے شمار مشکلات کے اس چشمہ فیض کو بند نہیں ہونے دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اہل پنجاب پر بالخصوص اور پورے برصغیر پاک و ہند پر بالعموم غزنوی خاندان کا بہت بڑا احسان ہے۔ جماعت کی سعادت مندی اور محسن شناسی کا تقاضا یہی ہے کہ جماعت بیش از بیش مالی امداد سے اس دارالعلوم کو مالی مشکلات سے بے نیاز کر دے۔ لاہور میں جماعت اہل حدیث کا یہ مدرسہ بڑی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ حضرت مولانا اپنی مسلسل بیماری و ضعف کی وجہ سے مدرسہ کی کماحقہ سرپرستی نہیں کر سکے۔ اب مولانا کے بعد وفا شعاری اور احسان شناسی کا تقاضا یہی ہے کہ اس درسگاہ کی طرف جس درسگاہ نے قال اللہ و قال الرسول کا غلغلہ بلند کر کے ملک میں علم و بصیرت کے چراغ روشن کیے اور جہالت و بدعت سے اس خطے کو پاک کیا، پوری توجہ مبذول فرمائیں: دردِ دل دارم بسے ازخوئے آں زیبا نگار فرصتے یا رب کہ دل را پیشِ وے خالی کنم بلند مرتبہ زیں خاکِ آستاں شدہ أم غبار کوئے تو ام گریز آسماں شدم أم |