Maktaba Wahhabi

340 - 346
یہ حضرات 1351ھ میں حضرت مولانا محمد علی لکھوی سے چینیاں والی مسجد میں کتبِ حدیث پڑھتے تھے۔مولانا لکھوی نے مولانا عبدالعظیم انصاری کو جو سندِ حدیث دی، اس پر 4 رجب 1351ھ لکھا ہے، عیسوی حساب سے یہ 3 نومبر1932ء بنتا ہے، اسی زمانے میں دیگر طلبا کو سندیں دی گئیں۔ وفات: حافظ محمد یوسف صاحب گکھڑوی سے متعلق بہت سی باتوں سے ہم مطلع ہو چکے ہیں۔وہ ہر کارِ خیر میں ہر آن مستعد رہتے تھے۔ان کی عام صحت بہت اچھی تھی۔انھوں نے گوجراں والا میں سکونت اختیار کر لی تھی۔18 اپریل 1980ء کو وہ سیڑھیوں سے گرے اور بائیں ٹانگ ٹوٹ گئی۔ان کے بیٹے حافظ عطاء السلام اس وقت دکان پر تھے، انھیں اطلاع دی گئی تو وہ فوراً گھر پہنچے۔اللہ جانے حافظ صاحب کو کیا معلوم ہوا۔عطاء السلام سے کہا: اب میرا آخری وقت آ پہنچا ہے۔زندگی کے صرف پندرہ سولہ روز باقی ہیں۔ بیٹے نے تسلی دی اور کہا: یہ معمولی زخم ہے، ان شاء اللہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ حافظ آباد میں ہڈی جوڑ کا ماہر ایک مشہور جراح تھا، اسے بلایا گیا۔اس نے علاج کیا، لیکن کامیاب نہ ہوا۔اس کے بعد انھیں میو ہسپتال داخل کرایا گیا۔یہاں وہ صرف دو دن رہے۔فرمایا:مجھے یہاں سے لے جاؤ۔’’مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں۔‘‘ اب انھیں لاہور سے گوجراں والا لے آئے اور لوگوں کے مشورے سے راہوالی کے سی، ایم، ایچ میں داخل کرا دیے گئے۔یہاں کا ڈاکٹر قادیانی تھا اور حافظ صاحب کے خلاف انتہائی تعصب رکھتا تھا۔یہاں سے انھیں سی،ایم،ایچ راولپنڈی لے گئے، یہاں بھی کوئی تسلی بخش علاج نہ ہو سکا۔بالآخر وہ 7 مئی 1980ء کووفات
Flag Counter