وفات پائی۔چودھری صاحب لکھتے ہیں : مولانا علاء الدین مرحوم کی خدمات گوجراں والا کی جماعت اہلِ حدیث کے لیے بڑی قابلِ قدر ہیں۔اس وقت اس شہر میں اہلِ حدیث کا نام لینا بھی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا تھا۔مولانا علاء الدین نے بڑی حکمتِ عملی سے یہاں اہلِ حدیث کے لیے زمین ہموار کی۔میرے والد صاحب چودھری محمد دین گوندل اس وقت جوان تھے اور جمعے کی نماز مولانا علاء الدین کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔انھوں نے بتایا تھا کہ جمعرات کو لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھیج دیتے تھے۔ساتویں اور چالیسویں کی چیزیں بھی آ جاتی تھیں، لیکن وہ چیزیں نہ مولانا علاء الدین خود کھاتے تھے نہ طلبہ کو کھانے دیتے تھے، غربا و مساکین کو دے دیتے یا جانوروں کو کھلا دیتے۔ مولانا علاء الدین سے مسجد میں انسانی شکل میں جنات بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔والد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ شہر میں ایک ہفتہ بارش کا سلسلہ جاری رہا۔جمعے کے روز مولانا ممدوح مسجد میں اپنے کپڑے خشک کرنے کے لیے ہوا میں لہرا رہے تھے کہ ایک طالب علم نے گزارش کی کہ یہ کپڑے مجھے دے دیجیے میں سکھا کر لاتا ہوں۔اس نے کپڑے پکڑے اور آنکھ بچا کر غائب ہو گیا اور کپڑے سکھا کر مولانا کی خدمت میں پیش کر دیے۔مولانا نے کپڑوں کو ہاتھ لگایا تو وہ گرم تھے۔پوچھا: کہاں سے سکھا کر لائے ہو؟ جواب ملا: فلاں پہاڑ پر گیا تھا، وہاں سے سکھا کر لایا ہوں۔اس سے قبل انھیں پتا نہ تھا کہ ان کے شاگردوں میں جنات بھی شامل ہیں۔ دوسرا واقعہ والد صاحب نے یہ بتایا تھا کہ مسجد کے قریب ہی ارائیاں والی گلی کے کونے پر تیلی برادری کا ایک گھر تھا۔یہ لوگ مولانا علاء الدین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے۔جنات طالب علموں نے وہ الفاظ ان سے سن لیے۔اس |