Maktaba Wahhabi

286 - 346
ترک کر دیں تو آپ ہی جمعہ پڑھایا کریں، آپ کو ماہوار وظیفہ بھی پیش کیا جائے گا۔مولانا سخت غصے میں آکر فرمانے لگے کہ اگر مجھے جارج پنجم(جو اس وقت حکومت برطانیہ کا بادشاہ تھا)تخت بھی دے اور سنت چھوڑنے کے لیے کہے تو میں ہرگز قبول نہ کروں گا۔اس کے بعد مولانا نے وہاں کی خطابت سے علیحدگی اختیار کرلی۔پھر مولوی علم الدین صاحب دیوبندی آئے۔ان موصوف کی امامت وخطابت کے دوران ہی میرے والد محترم کو بوہڑ والی مسجد سے محض رفع الیدین اور آمین بالجہر کی بنا پر زد و کوب کرکے نکالا گیا۔اس واقعہ کے بعد ہی میرے والد محترم نے اپنا ایک ذاتی مکان مسجد اہلِ حدیث کے لیے وقف کیا تھا، جو آج کل مسجد توحید گنج کی شکل میں موجود ہے۔ میں لاہور میں تعلیم اور ملازمت کے شغل میں مشغول تھا کہ گکھڑ کی اس بوہڑوالی مسجد میں انقلاب آگیا۔یعنی مولوی علم الدین صاحب کو برطرف کرکے مولوی محمود صاحب دیوبندی کو جو غالباً مولانا حسین علی واں بھچراں والا رحمہ اللہ کے شاگرد یا مرید تھے، لایا گیا۔ان سے مولانا احمد دین صاحب کی گفتگو فاتحہ خلف الامام پر کئی دن تک رہی۔اس گفتگو میں میں بھی موجود تھا۔مولانا محمود صاحب اس گفتگو میں اپنے آپ کو دلائل کے لحاظ سے ہلکا محسوس کرتے تھے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے موصوف اپنے مقتدیوں کو گلی میں لے جاکر اکیلے کھڑے ہو کر سمجھانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران میں ایک دن مولانا احمد الدین نے فرمایا کہ آج میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ: ’’ میں گھر پر موجود نہیں ہوں۔مجھے کسی نے آکر اطلاع دی کہ آپ کے گھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مہمان آئے ہوئے ہیں۔میں گھر پہنچا تو حضرت امام رحمہ اللہ کو سفید لباس میں نہایت خوب صورتی کے عالم میں دیکھا۔میں ان کے پاس بیٹھ گیااور گفتگو
Flag Counter