Maktaba Wahhabi

275 - 346
شہرہ ہر سو پھیل گیا۔جس جلسے میں شریک ہوتے، اس کی کامیابی کا سہرا ان کے سر بندھتا۔اسی زمانے میں انھوں نے محدثِ دوراں حضرت مولاناحافظ عبداللہ روپڑی سے شرح تہذیب پڑھی۔بعد ازاں حضرت مولانا شریف اللہ خاں صاحب(سابق مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی، مدرسہ تقویۃ الاسلام لاہور اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد)سے سلم العلوم اشکال اربعہ تک پڑھی۔اس کے علاوہ بھی بہت سی درسی کتابیں مختلف اوقات میں پڑھ لیں۔غرض اس طرح انھوں نے تقریباً تمام فنون کے ضروری حصوں پر عبور حاصل کرلیا۔ برصغیر کی مذہبی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ 1947ء(تقسیمِ ہندوستان)تک مذہبی اور تبلیغی لحاظ سے متحدہ ہندوستان میں مناظرات کا دور دورہ تھا، جس کے بغیر اس وقت کوئی چارہ کار نہ تھا۔جماعت اہلِ حدیث میں اس کی سربراہی کا سلسلہ حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری کے سپرد تھا یا پھر ان کے بعد حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے تیسرے عشرے1920ء میں ہمارے مولانا احمدالدین بھی عین عالمِ جوانی میں مناظرین و مبلغین کی اس جماعت میں شامل ہو گئے۔چنانچہ اسلام سے باہر اور مسلمانوں کے اندر ہر فرقے کے مناظرین سے انھیں سابقہ پڑا اور تقریباً ہر مناظرے میں کامیابی حاصل کی۔ان مختلف موضوعات پر جو اس زمانے میں مناظرات کے ہوتے تھے، مولانا احمد الدین کی تقریریں بہ اعتبار ٹھوس دلائل اپنے سب معاصرین پر فائق اور طرزِ بیان میں بہت دلچسپ ہوا کرتی تھیں، اور پھر یہی انداز تا حین حیات رہا ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ مناظرات اور مناظرانہ تقریروں میں سرفہرست مرزائیت کے پیدا کردہ جو
Flag Counter